Saieen loag

جمعہ، 24 مئی، 2019

بزرگوں کے مزارات پر کچھ شرمناک واقعات کی جھلک قسط نمبر:6


صوفی بزرگوں کے مزارات پر منعقده سالانه عرس کے متعلق چونکا دینے والے کچھ شرمناک حالات و واقعات

ات

                      قسط نمبر :6

خانقاھوں پر ھونے والے عرس میں جھاں بدعات اور مشرکانه کاموں کی بھر مار ھوتی ھے وھاں بے حیائی, عریانی,فحاشی کے غیر اخلاقی و غیر شرعی کاموں کی بھی کوئی کسر نھیں چھوڑی جاتی,

 دھمال کے نام پر سب مخلوط مرد و زن چرس اور بھنگ کے نشے میں بدمست, عاشق مزاج,جنونی,بدحال مرد تو مرد ساتھ ساتھ عورتوں کے رقص ‘طوائفوں کے مجرے,
ٹھیٹر اور فلموں کے مظاہر عام نظر آتے ہیں.

دین خانقاھی کی انہی رنگ رلیوں اور عیاشیوں کے باعث گلی گلی ‘محلے محلے ‘گاؤں گاؤں ‘شہر شہر ‘نت نئے مزار تعمیر ہورھے ہیں.

اور آجکل یه دھنده ایک بزنس کا روپ دھار چکا ھے,
 کچھ لوگوں نے پلاننگ کے تحت مختلف علاقوں میں فرضی بزرگوں کی قبریں راتو رات تیار کرکے نذر ونیاز,شرینی اور چادروں اور پھولوں کو بار بار ری سیل کرکے اسے منافع بخش تجارت سمجھتے ھوۓ,
جعلی  مزارات میں اضافه کا سبب بن رھے ھیں.

رحیم یارخان (ضلع پنجاب پاکستان )میں دین خانقاھی کے علمبرداروں نے پیشہ ور ماہرین آثار قدیمہ سے بھی زیادہ مہارت کا ثبوت دیتے ہوئے,
 چودہ سو سال بعد رانجھے خاں کی بستی کے قریب بر لب سڑک ایک صحابی رسول ﷺ کی قبر تلاش کرکے اس پر نہ صرف مزار تعمیر کرڈالا بلکہ ’’صحابی رسول خمیر بن ربیع کا روضہ مبارک ‘‘کا بورڈ لگا کر اپنا کاروبار بھی شروع کردیا ھے.

 گزشتہ چند سالوں سے ایک نئی رسم دیکھنے میں آرھی ھے وہ یہ کہ اپنی خانقاھوں کی رونق بڑھانے کے لئے بزرگوں کے مزارات پر رسول الله ص کے اسم ِ مبارک سے عرس منعقد کئے جانے لگے ہیں.

 مسلمانوں کی اس حالت زار پر آج علامہ اقبال رح کا یہ تبصرہ کس قدر درست ثابت ھورہا ھے .

ھونکه نام جو قبروں کی تجارت کرکے 
کیا  نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے.

دین خانقاھی کی تاریخ میں یہ دلچسپ اور انوکھا واقعہ بھی پایا جاتا ھے کہ ایک بزرگ شیخ حسین لاھور (سنہ 10053ھ)ایک خوبصورت برہمن لڑکے ’’مادھولال ‘‘ پر عاشق ھوگئے.

 پرستاران اولیاء کرا م نے دونوں بزرگوں کا مزار شالیمار باغ لاھور کے دامن میں تعمیر کردیا ,
جہاں ہر سال 8/جمادی الثانی کو دونوں بزرگوں کے مشترک نام ’’مادھولال حسین ‘‘ سے بڑی دھوم دھام سے عرس منعقد کرایا جاتا ھے.

 جسے زندہ دلان لاھور عرف عام میں میلہ چراغاں کہتے ہیں.

حضرت مادھولال کے دربار پر کندہ کتبہ بھی بڑا انوکھا اور منفرد ھے
 جس کے الفاظ یہ ہیں ’’مزار پر انوار‘مرکز فیض وبرکات ‘راز حسن کا امین‘معشوق محبوب نازنین‘محبوب الحق ‘حضرت شیخ مادھو قادری لاھوری.

یوں تو یہ مزار اور مقبرے تعمیر ھی عرسوں کے لئے کئے جاتے ہیں چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں نہ معلوم کتنے ایسے عرس منعقد ھوتے ہیں,

 جو کسی گنتی اور شمار میں نہیں آتے.

 لیکن جو عرس ریکارڈ پر موجود ہیں ان پرایک نظر ڈالئے اور اندازہ کیجئے کہ دین خانقاھی کا کاروبار کس قدر وسعت پذیر ھے.
اور حضرتِ ابلیس نے جاہل عوام کی اکثریت کو کس طرح اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھا ھے.

کچھ عرصه قبل کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے اندر 436/عرس شریف منعقد ھوتے ہیں.

 گویا ایک مہینے میں 53/یا دوسرے الفاظ میں روزانہ 1.74,
یعنی پونے دو عرس منعقد ھوتے ہیں. جو عرس ریکارڈ پر نہیں یا جن کا اجراء دوران سال ھوتا ھے ان کی تعداد بھی شامل کی جائے تو یقینا یہ تعداد دوعرس یومیہ سے بڑھ جائے گی.

 ان اعداد وشمار کے مطابق مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر اب ایسا کوئی سورج طلوع نہیں ہوتا جب یہاں عرسوں کے ذریعے شرک وبدعت کا بازار گرم کرکے اﷲتعالیٰ کے غیض وغضب کو دعوت نہ دی جاتی ھو.

ھماری یه تحریریں,بزرگ کے مزار پر عرس کی حقیقت کا سلسله جاری ھے.

کوشش کریں گے کل مکمل عرس کے متعلق اعداد و شمار کی رپورٹ آپ برادران تک پهنچائیں جو محمکه اوقاف کی ترتیب شده ھے.

کیونکه اس تجارت سے حکومت بھی خوب فائده اٹھا رھی ھے اور پیسے کے لالچ میں جاھل عوام کے ایمان و عقائد برباد کرنے میں برابر کی شریک ھے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...