Saieen loag

جمعہ، 24 مئی، 2019

جانشین پیغمبر ص کون.....البدایه والنھایه

.....
جانشین پیغمبر ص کون

برادران اسلام کو دعوت فکر که وه راه حق کا انتخاب کریں:

تبلیخ اسلام کے آوائل میں ھی آپ ص نے 
مولا علی ع کو آپنا وزیر و جانشین اور اسکی اطاعت واجب قرار دے دی تھی.

ابلاغ رسالت کیلۓ جب حکم خدا وندی ھوا تو آپ ص کوه صفا پر تشریف لاۓ اور باآواز بلند لوگوں کو بلایا جب سب جمع ھو گۓ تو آپ نے فرمایا:

آۓ بنی عبدالمطلب ,بنی فھر,اور آۓ بنی کعب مجھے حکم ھوا ھے که میں آپنے عزیز و اقربا کو الله کے خوف سے ڈرا کر قبول اسلام کی ھدایت کروں.

آپ ص نے حضرت علی ع کو حکم دیا که ایک بڑۓ برتن ایک صاع (تقریبا ایک سیر)کھانه لاؤ اور ایک برتن میں دودھ تاکه ھم انھیں اسلام کی دعوت سے قبل کچھ کھلا پلا سکیں.

آپکے ارشاد کی تعمیل میں تقریبا 40/لوگ بنی عبدالمطلب کے جمع ھوۓ جن میں حضرت حمزه,حضرت ابو طالب اور ابو لھب بھی شامل تھے.

سب کو پیٹ بھر کے کھانا کھلایا اور حضرت علی ع سے فرمایا اب انھیں  دودھ پلاؤ.

تھوڑا سا کھانا اور دودھ کی برکت جب لوگوں نے دیکھی تو کھنے لگے یه جادوگر ھیں اور آپنے معجزه سے لوگوں کو بھکاتا ھے.

جب بات کرنے کا وقت آتا تو سب چلے جاتے مسلسل تین دن ایسے ھوا تیسرۓ دن کھانے کے بعد حضرت ابوطالب نے سب کا راسته روکا,
 اور ھر حال میں دعوت اور بلانے کی وجه سماعت کرنے پر ضد کی,

 چونکه آپ ص نے فرمایا مجھے الله تعالی کی طرف سے حکم ھوا ھے که میں تمھیں الله کی طرف بلاؤں اب بتائیں اس سلسله میں میری کون مدد کرۓ گا.

سب نے بڑی اعتنائی سے منه پھیر لیا اس حضرت علی ع نے کھا میں آپکی مدد و نصرت کیلۓ تیار ھوں.

یه سن کر رسول الله ص نے حضرت علی ع کی کلائی پکڑ کر فرمایا :

یه(علی ع)میرا بھائی اور میرا وزیر ھے اب تم اسکی بات سنو اور اطاعت کرو.

آپکی یه بات سن کر سب ھنسنے لگے اور ابو طالب سے بولے کیا اب تمھارۓ بھتیجے کے علاوه بیٹے کی بات بھی سننی اور اطاعت کرنی واجب ھے.

امام احمد فرماتے ھیں که یه اس لیۓ کیا که اگر ارسول الله ص کو خدا نا خواسته ابلاغ رسالت کے دوران آپکو قتل یا وفات ھو جاتی ھے تو آپکی جگه کون لے گا.

اس لیۓ آپ نے تبلیغ اسلام کے آوائل ھی میں یه سعادت مولا علی ع کو سونپ دی تھی.

که میرۓ بعد میرا وزیر و وصی میرا بھائی علی ع ھے اسکی بات سننا اور اطاعت کرنا تم پر واجب ھے.

جبکه عملی طور پر ایسا نھیں ھوا بلکه آپکی آخیر زندگی میں ان سب احکامات کی دھجیاں بکھیر دی گئیں.
بعد میں کیا ھوا سب آپ برادران کے علم میں ھے.

جب دعوت زوالعشیره پر مولا علی ع نے مدد و نصرت کیلۓ وعده کیا اس وقت آپکی عمر مختلف روایات ھیں سات سال مگر مستند ھے دس سال تھی.
سب سے پهلی نماز بھی حضرت علی ع نے آپ ص کی اقتدا میں پڑھی.

البدایه میں ھے که اس وقت اڑتیس صحابه مسلمان ھو چکے تھے جن میں حضرت ابو بکر بھی شامل تھے.

مگر دعوت أاڑانے کے بعد آپ ص کی  مدد کی درخواست پر مولا علی ع آگے بڑھے.

یه تحریر تاریخ اسلام کی مایه ناز اھلسنت کی کتاب تاریخ ابن کثیر(البدایه والنھایه)جلد سوم ص:61,62,63,64/سے ماخوز ھے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...