Saieen loag

جمعہ، 24 مئی، 2019

ننگے دھڑنگے پیروں کی پوجا جھالت کی انتھاء

جھوٹے پیر اور مشھور صوفیه سے منصوب قصوں اور کرامات کا ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تعلیم کے زریعے بچوں پر اثر:

                       قسط نمبر :3

 کسی ملک کے تعلیمی ادارے اس قوم کا نظریہ اور عقیدہ بنانے یا بگاڑنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں.

 ہمارے ملک اور قوم کی یہ بدنصیبی ھے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم ہمارے دین کی بنیاد عقیدہ توحید سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی.

 ایسے ایسے صوفیه کے حالات زندگی اور کرامات کو بڑھا چڑھا کر لکھا جاتا ھے که,

مضامین کو پڑھنے کے بعد دس بارہ سال کے خالی الذهن بچے پر جو اثرات مرتب ہوسکتے ہیں وہ یہ ہیں:

1 : بزرگوں کے مزار اور مقبرے تعمیر کرنا ان پر عرس اور میلے لگانا ان کی زیارت کرنا نیکی اور ثواب کا کام ھے .

2 :۔ بزرگوں کے عرسوں میں ڈھول تاشے بجانا ‘دھمال اور لڈی ڈالنا,رنگ دار کپڑے کے جھنڈے اٹھاکر چلنا بزرگوں کی عزت اور احترام کا باعث ھے .

3 : بزرگوں کے مزاروں پر پھول چڑھانا ‘فاتحہ پڑھنا ‘چراغاں کرنا ‘کھانا تقسیم کرنا او روہاں بیٹھ کر عبادت کرنا نیکی اور ثواب کا کام ھے .

4  : مزاروں اور مقبروں کے پاس جاکر دعا کرنا قبولیت دُعا کا باعث ھے.

5 : فوت شدہ بزرگوں کے مزاروں سے فیض حاصل ہوتا ھے اور اس ارادے سے وہاں جانا کارِ ثواب ھے.

اس تعلیم کا نتیجہ یہ ھے کہ ملک کے کلیدی عہدوں پر جو لوگ فائز ہوتے ہیں وہ عقیدہ توحید کی اشاعت یا تنقید کے مقدس فریضہ کو سرانجام دینا تو درکنار ‘شرک کی اشاعت اوراس کی ترویج کا باعث بنتے ہیں ,
چند تلخ حقائق ملاحظہ فرمائیں :

 (1)  صدر ایوب خاں ایک ننگے پیر
 (بابا لال شاہ)کے مرید تھے جومری کے جنگلات میں رہا کرتا تھا اور اپنے معتقدین کو گالیاں بکتا تھا,
 اور پتھرمارتا تھا اس وقت کی آدھی کابینہ اورہمارے بہت سے جرنیل بھی ا س کے مرید تھے.
(پاکستان میگزین 28,فروری 1992ء  )

 (2) ہمارے معاشرے میں ’’جسٹس‘‘ کو جو مقام اور مرتبہ حاصل ھے اس سے ہر آدمی واقف ھے ,
محترم جسٹس محمد الیاس صاحب ‘حضرت سید کبیر الدین المعروف
 شاہ د ولہ (گجرات)کے بارے میں ایک مضمون لکھتے ہوۓ رقمطراز ہیں:

 آپ کا مزار اقدس شہر کے وسط میں ھے اگر دنیا میں نہیں تو برصغیر پاک وہند میں یہ واحد بلند ہستی ہیں جن کے دربار پُر انوار پر انسان کا نذرانہ پیش کیاجاتا ھے,

وہ اس طرح کہ جن کے ہاں اولاد نہ ھو وہ آپ کے دربار مبارک پر حاضر ہوتے ہیں اور اولاد کے لئے دعا کرتے ہیں.
 ساتھ ہی یہ منت مانتے  ہیں کہ جو پہلی اولاد ہوگی وہ ان کی نذر کی جائے گی اس وجه سے جو اولین بچہ پیدا ہوتا ھے اسے عرف عام میں ’’شاہ دولہ ‘‘  کا چوہا کہا جاتا ھے .

اس بچے کو بطور نذرانہ دربار اقدس میں چھوڑدیا جاتا ھے اور پھر اس کی نگہداشت دربار شریف کے خدام کرتے ہیں بعد میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں.

 وہ عام بچوں کی طرح تندرست ہوتے ہیں روایت ھے کہ اگر کوئی شخص متذکرہ بالا منت مان کر پوری نہ کرے تو پھر اولین بچے کے بعد پیدا ہونے والے بچے بھی پہلے بچے کی طرح ہوتے ہیں.
(نوائے وقت 26,مارچ 1991ء).
میں نے 2012,میں بی بی سی کی ایک تحقیقی ویڈیو دیکھی جو اسی دربار کے متعلق ھے اس میں انھوں نے مکمل ھسٹری بتائی ھے بلکه چند شاه دوله چوھوں کے انٹرویو بھی پیش کیۓ ھیں.

جھاں تک ان چوھوں کے سر کا تعلق ھے جو بچے وھاں بیٹھے درباری چیلوں کی نذر کیۓ جاتے ھیں ان معصوم بچوں کے سر پر لوھے کا ایک خول چڑھا دیا جاتا ھے جسکی وجه سے انکا سر بڑھ نھیں پاتا اسی طرح ایک تندرست بچے کو معزور کرکے ملک کے طول و عرض میں چنده اور نذر نیاز جمع کرنے کیلۓ بھیج دیا جاتا ھے.

ھمارۓ علاقه جنوبی پنجاب کے پسمانده مضافات تک انکی مار دیکھی گئی ھے.

نوٹ.  :
ھم حکومت پاکستان سے مطالبه کرتے ھیں که اس دربار کو منھدم اور معصوم بچوں کو پوری زندگی کیلۓ محتاج کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکا کر  نشان عبرت بنایا جاۓ.

 (3)  جناب جسٹس عثمان علی شاہ صاحب مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایک انتہائی اعلیٰ اور اہم منصب  ’’وفاقی محتسب اعلیٰ‘‘  پر فائز ہیں ایک انٹرویومیں انہوں نے یہ انکشاف فرمایا ’’میرے دادا بھی
فقیر تھے ان کے متعلق یہ مشہور تھاکہ اگر بارش نہ ھو تو اس مست آدمی کو پکڑ کر دریا میں پھینک دو تو بارش ہوجائے گی انہیں دریا میں پھینکتے ھی بارش ہوجاتی تھی,
 آج بھی ان کے مزار پر لوگ پانی کے گھڑے بھربھر کرڈالتے ہیں.
(اردو ڈائجسٹ ستمبر 1991ء).

(یه دلچسپ موضوع ابھی جاری ھے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...