Saieen loag

بدھ، 1 مئی، 2019

حضرت عمر کے ساتھ نکاح سیده ام کلثوم بنت علی ع أور مولانا جلال الدین سیوطی کی تحقیق.

نکاح سیده ام کلثوم بنت علی ع اور علامه جلال الدین سیوطی کی تحقیق

اصل میں جس ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے ھوا وه حضرت ابوبکر کی بیوی اسماء بنت عمیس سے تھیں جنھوں نے حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی سے نکاح کیا.

اس ام کلثوم کا نکاح حضرت عائشه کی پرزور سفارش پر عمر بن خطاب سے کیا.
بحوالا :ام کلثوم و شرح کنز مکتوم مولف :سید منشی سجاد حسین.
طراز المذھب مظفری مصنف مرزا عباسی.

اب ھم آتے ھیں اھلسنت کے عظیم مصنف و مورخ علامه جلاالدین سیوطی کی کتاب مسند فاطمه زھرا رض, 118/119/120,
مکمل سکین پیش ھیں.

عبارت ھو بھو پیش کی جاری ھے ھماری طرف سے ایک لفظ کی بھی کمی یا اضافه نھیں .

مستضل بن حصین رض سے مروی ھے که عمر بن خطاب نے مولا علی رض سے آنکی بیٹی کا رشته مانگا آپ نے نا بالغ ھونے کا عزر کیا مگر حضرت عمر نے اصرار کیا که وه با راده مجامعت نھیں کھتا بلکه فرمان رسول ص که میرۓ نسبی تعلق کے سوا قیامت کو ھر نسبی تعلق منقطع ھو جاۓ گا.
ھر مولود کا نسب باپ سے ھے لیکن اولاد  فاطمه کا باپ اور نسبی وارث میں ھوں.

وضاحت مزکوره روایت الفاظ و معنی کے تفاوت سے مختلف کتب حدیث اور سیرت و تاریخ میں مذکور ھے جن میں کتب اھلسنت کے علاوه تشیع کی کتاب فروع کافی,کتاب الابصار اور تھذیب الحکام وغیره بھی شامل ھیں.

اس مسله پر علماء و محقیقین نے بڑی بحث کی ھے اور رویتة و درایتة اسے محل نظر قرار دیا ھے.

اس کا خلاصه یه ھے که اس نکاح کا تذکره صحیح بخاری,عمدة القاتی,فتح الباری ,طبقات ابن سعد,معارف ابن قتیبه اور جمھرة انساب العرب وغیره معتبر کتب شامل ھیں جنمیں اس نکاح بارۓ انکار نھیں کیا.

علماۓ عرب نے بھی اس اثبات پر بھت کتابیں لکھیں ھیں.
مثلا سید احمد ابراھیم,ابو معاز اسماعیلی نے کتاب زوج عمر بن خطاب من الکلثوم بنت علی حقیقة لا افترا" 
جبکه وه علماء جو ان قائلین کے جواب میں کھتے ھیں که حدیث یا تاریخ کی کتاب میں کسی روایت کا مذکور ھونا ھرگز سچ ثابت ھونا نھیں که رویت معتبر ھو.

صحیح بخاری جو کتاب الله کے بعد سب سے افضل مانی جاتی ھے .
لیکن اس کے باوجود بھی بخاری کے بعض راویوں اور روایات پر امام حجر عسقلانی, نے فتح الباری,میں سندا ومتنا کلام کرکے بعض راویوں کو ضعیف اور فاسد العقیده لکھا ھے.

اسی طرح امام بدرالدین عینی حنفی نے بھی آپنی تصنیف"عمدة القاری" میں بخاری کے بعض راویوں کی روایات پر حکم ضعیف لگایا ھے.

اور جرح کی ھےمشھور سیرت نگار قاضی عبدالروف دانا پوری نے بھی اصح السیر میں بخاری شریف کی روایات پر کلام کیا ھے.اور لکھا ھے که امام بخاری کی احتیاط کے باوجود بھی کچھ روایات و راوی مجروح ھیں.علامه شامی حنفی نے شرح عقود رسم المفتی میں بھی یه بات تحریر کی ھے.

اس نکاح سے انکار والے بھی یھی کھتے ھیں که یه روایة اور داریة ھر دو طرح سے محل نظر ھے.
کیونکه امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں لکھا که ام کلثوم بنت علی ع سے عمر فاروق کا نکاح 17/ھ میں ھوا .

علامه شبلی نعمانی نے الفاروق میں امام ابن حبان کی تائید کی ھے اور 17/ھ ھی تسلیم کیا ھے.

نیز لکھا بوقت نکاح عمر پانچ سال کی تھی.زیر بحث روایت میں بھی یھی لکھا ھے.
اسی لیۓ امام علی ع نے نابالغ ھونے کا عزر پیش کیا.
11/ھ میں سیده فاطمه زاھره س کا انتقال ھوا ھے تو ماں کے وصال کے بعد بیٹی کی ولادت کس کھاتے میں جاۓ گی.

مولانا اکبر شاه خان نجیب آبادی نے تاریخ اسلام میں نکاح کا سال 7/ھ لکھا ھے.اور بطن سے رقیه و زید کی ولادت کا زکر بھی کیا ھے.
قابل غور یه ھے که یه نکاح 6/7 سال قبل ھوا اور ام کلثوم بعد میں پیدا ھوئیں.

امام عبدالباقی زرقانی نے شرح المواھب میں لکھا که حضرت عمر آپنی زوجه بنت علی کے بالغ ھونے سے قبل فوت ھوۓ.

سوچنے کی بات یه ھے که ایک نا بالغ بچی کس طرح ماں بن گئی ھے.

سنن نسائی کے باب تزوج المراة مثلھا فی السن کے تحت روایت کی ھے که شیخین نے جب رسول الله سے رشته مانگا تو آپ ص نے صغر سنی کا عزر پیش کیا اور انکار فرمایا.

وضاحت میں علامه سندی نے لکھا که خاوند اور بیوی میں باھمی محبت کیلۓ دونوں کا ھم عمر ھونا لازمی ھے.

سیده فاطمه س اور شیخین کی عمروں میں واضح فرق کا وجه انکار تھا.
اسی طرح کا عمر نے بھی ایک فیصله بھی کیا تھا.اور کھا که الله سے ڈرو ھم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کا نکاح کیا کرو.
سمجھ نھیں آتی که پھر حضرت عمر نے واضح سنت سے انحراف کیسے کیا.
که ایک نابالغ لڑکی سے نکاح پر اصرار کیا.
دوسرا پھر ام کلثوم سے اولاد کا ھونا بھی واضح تضاد ھے.
اس نکاح کے بعد بھت سی حیا سوز باتوں کا کتب میں بھی زکر ملتا ھے.
(یه میں خود ایک ریسرچ کے دوران پاکستان کی سب سے بڑی لائیبریری میں رکھی کتب میں واقعی پڑھ چکا ھوں جو ناقابل بیان ھیں).

اب صحیح بخاری کے اس روایت کے راوی سفیان بن وکیع ھے جو امام نسائی کے نذدیک ضعیف ھے امام حجر عسقلانی کے نذدیک ناقابل اعتبار,_امام ابو زرعه کے نذدیک جھوٹا اور ابن ابی حاتم کے مطابق اس کی روایت ناقابل اعتماد ھے.

دوسرا راوی ثعلبه بن ابی مالک ھے اسماء و رجال کی کتابوں میں اس کا کوئی زکر ھی نھیں اس لیۓ یه مجھول الحال راوی ھے.
لھذا سندا یه روایت ھی مجروح ھے.

قرآن کریم کی صریح آیات  میں نکاح کے مصالح مذکور ھیں مثلا خاوند بیوی کی باھمی محبت ایک دوسرۓ کی عزت و عفت کی حفاظت اولاد کی افزائش و تربیت جسمانی اور زھنی تدکین و اطمنیان گھر کے ماحول کو پر سکون بنانے کیلۓ ایک دوسرۓ سے تعاون,باھمی رازداری,نسل انسانی کی بقاء پر امن معاشرۓ کا قیام دنیا و آخرت میں کامیابی کیلۓ مخلصانه کوششیں وغیره قابل غور ھیں قابل غور امر یه ھے که جو بچی ابھی گڑیوں سے کھیلنے کی عمر ھو مذکوره بالا نکاح کے مصالح کس طرح پوری کر سکتی ھے.
پھر قرآن میں نساء سے نکاح کا حکم دیا گیا یه لفظ ایک بالغ عاقل اور باشعور عورت کیلۓ بولا جاتا ھے.

انھیں واقعات کو بنیاد بنا کر غیر مسلم پاک نبی ص سمیت اسلام کو بدنام کرتے ھیں که مسلمان نابالغه بچیوں سے شادی کو جائز سمجھتے ھیں.
لھذا مذکوره نکاح کی جمله روایات میں نظر ثانی اور حقائق و دلائل کو تسلیم کرنا چاھیۓ.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

علامہ غضنفر عباس تونسوی ہاشمی کے مکمل حالات زندگی

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تحریر و تحقیق: آغا ایم جے محسن  سامعین کرام اسلام علیکم  سامعین کرام آج ھم بات کریں گے شیعہ مذھب کے مشھور و معروف ...